اسلامی معاشرت میں خاندان کی حیثیت بنیادی اور مرکزی ہے، اور ازدواجی تعلق کو دینِ اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ نکاح کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، اور میاں بیوی کا رشتہ باہمی محبت، عزت اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی پر مبنی ہے۔ تاہم، آج کے دور میں طلاق کا مسئلہ ایک سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے، جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
طلاق کی شرعی حیثیت
اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے، اور اس کو آخری حل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جب میاں بیوی کے درمیان صلح و مفاہمت کے تمام دروازے بند ہو جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
“حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے” (سنن ابی داؤد)۔
طلاق کو اس وقت تک اختیار نہیں کرنا چاہیے جب تک دونوں فریق کے درمیان اصلاح کی کوئی امید باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
“اگر تمہیں ان کے درمیان اختلاف کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مقرر کرو، اگر دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت پیدا کرے گا” (سورۃ النساء: 35)۔
موجودہ دور میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان
حالیہ برسوں میں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس کے مختلف اسباب ہیں:
- معاشرتی دباؤ اور غلط توقعات: جدید معاشرت میں ازدواجی زندگی کے بارے میں غیر حقیقی توقعات پیدا ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے معمولی مسائل کو بڑا بنا کر طلاق کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
- خاندانی اور سماجی اختلافات: بہت سے خاندان میں مختلف ثقافتی یا طبقاتی تضادات کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں جو طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔
- مواصلات کی کمی: اکثر اوقات ازدواجی مسائل صرف اس لیے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر بات نہیں کرتے اور بدگمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
- معاشرتی اور معاشی دباؤ: موجودہ دور میں مالی مسائل اور سماجی دباؤ کی وجہ سے بھی طلاق کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
اسلامی حل: صبر اور تحمل
اسلام میں میاں بیوی کے رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے صبر، تحمل اور باہمی محبت کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو” (سورۃ النساء: 19)۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، ازدواجی زندگی کے مسائل کا حل طلاق میں نہیں بلکہ صبر، معافی، اور ایک دوسرے کی عزت کرنے میں ہے۔ اگر دونوں فریق اپنے حقوق و فرائض کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، تو بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔
طلاق سے قبل احتیاطی تدابیر
اسلام میں طلاق کو فوری فیصلہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس سے قبل کئی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے:
- صلاح مشورہ: طلاق سے پہلے دونوں فریقین کو آپس میں مشورہ کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو بزرگوں یا خاندان کے افراد کو شامل کرنا چاہیے۔
- ثالثی کا کردار: جیسے قرآن نے ثالث مقرر کرنے کی ہدایت دی ہے، میاں بیوی کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے ایک ثالث مقرر کیا جائے جو دونوں کے حق میں بہتر حل نکال سکے۔
- عدت کا انتظار: طلاق دینے کے بعد عدت کا انتظار ضروری ہے، جو اس بات کی مہلت دیتا ہے کہ دونوں فریقین دوبارہ سوچ سکیں اور ممکنہ طور پر صلح کر سکیں۔
اسلامی معاشرت میں طلاق کا اثر
طلاق نہ صرف میاں بیوی کی زندگی پر منفی اثر ڈالتی ہے، بلکہ بچوں اور پورے خاندان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسلام میں خاندان کی اکائی کو معاشرت کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، اور طلاق سے یہ اکائی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم، تربیت اور ان کی نفسیاتی نشوونما پر طلاق کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نتیجہ
طلاق ایک ایسا عمل ہے جس سے بچنا چاہیے، مگر بعض حالات میں یہ ایک ناگزیر حل بھی بن جاتا ہے۔ اسلام میں طلاق کا عمل موجود ہے لیکن اس کو ناپسندیدہ قرار دے کر اس سے پہلے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ خاندان اور معاشرتی زندگی مستحکم رہ سکے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ازدواجی تعلقات کو مضبوط بنانے اور طلاق سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دعا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ازدواجی زندگی میں خوشیوں اور محبتوں سے نوازے اور ہمیں صبر و تحمل کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔